1۔ تاسیس اور تعارف
بحمد اللہ ”نظام المدارِس پاکستان“ عصرِ حاضر کے عظیم نابغہ و عبقری محقق، مفسّر، محدّث، ماہرِتعلیم اور اِدارہ منہاج القرآن کے بانی و سرپرستِ اَعلیٰ شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری مدّظلہ العالی کی علمی و فکری اور نظریاتی راہ نُمائی میں قائم کیا گیا ہے۔ آپ نےاپنی تجدیدی و اِجتہادی، دینی دانش و بصیرت کو عملی جامہ پہنانے اور علوم عصریہ و شرعیہ کو یکجا کرنے کے لیے 1986ء میں علوم و فنون کے ثقافتی مرکز لاہور میں ”جامعہ اِسلامیہ منہاج القرآن“ کی بنیاد رکھی، جسے یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن (UGC) آف پاکستان نے مراسلہ نمبری 10–2/Acad/92 مجریہ بتاریخ 28 اپریل 1992ء کے تحت ایم۔ اے عربی اور علومِ اِسلامیہ (MA Arabic and Islamic Studies) کے مساوی الشهادة العالمية في العلوم العربية والإسلامية کی ڈگری جاری کرنے کا باقاعدہ اِختیار دیا۔ بعد ازاں ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) اِسلام آباد نے مراسلہ نمبری 8–16/HEC/A&A/2003/415 مجریہ بتاریخ 8 اپریل 2003ء کے تحت اِس کی توثیق کرتے ہوئے اسے برقرار رکھا۔
جامعہ اِسلامیہ منہاج القرآن کی 35 سالہ عدیم المثال اور لائقِ رشک تعلیمی اور تربیتی خدمات کے نتیجے میں وفاقی وزارتِ تعلیم اور فنّی تربیت، حکومتِ پاکستان نے 4 فروری 2021ء کو نوٹی فکیشن نمبری 1–46/2014–NCC/RE کے تحت وفاقی دینی تعلیمی بورڈ ”نظام المدارِس پاکستان“ کی منظوری دی ہے۔
2۔ مقاصد اور اَہداف
قرآن و سنت کی تعلیمات اِتحاد و یگانگت، باہمی اُخوت، تحمل و برداشت، روا داری اور اِعتدال و میانہ روی کا درس دیتی ہیں اور ہر نوع کی فرقہ واریت، مسلکی انتہا پسندی اور فتنہ و فساد کی نفی کرتی ہیں۔ کون نہیں جانتا کہ اِسلام کی نظریاتی، اَخلاقی اور فکری عمارت ’لَا تَفَرَّقُوْا‘ اور ’أُمَّةً وَّسَطًا‘ کی بنیاد پر اُستوار ہے۔ اندرون اور بیرون ملک اِسلام کے انہی جامع، عالم گیر، آدمیت آموز اور اِنسانیت دوست نظریات کو فروغ دینے اور دینی اور عصری تعلیمی، اَخلاقی و روحانی اور تربیتی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ”نظام المدارِس پاکستان“ کے پاکستان اور بیرونِ ملک بعد اَز بسیار تدبر و تفکر اور تفحص و تعمق درج ذیل رفیع الشان تعلیمی اور تربیتی اَہداف و مقاصد کا تعین کیا ہے:
1۔ دینی نظامِ تعلیم کی جدید خطوط پر استواری کے لیے اِصلاحات متعارف کرانا۔
2۔ منسلک اور ملحقہ مدارِس/جامعات/اِدارہ جات کے ماحول کو ہر قسم کی اِنتہا پسندانہ، متشدّدانہ، فرقہ وارانہ سوچ، میلانات و رجحانات اور تعصبات سے کاملًا پاک رکھنا۔
3۔ طلبہ و طالبات کی ایسے منہج پر اَخلاقی اور روحانی تربیت کا اِہتمام اولین ترجیح بنانا جس کے زیرِ اثر وہ تعمیرِ شخصیت، علّوِ ذہنی، تزئین و تہذیبِ کردار، تقویٰ و طہارت، اِحترامِ اِنسانیت، حب الوطنی اور خدمتِ خلق کے جذبے سے سرشار ہو کر اِسلام کی حقیقی فکر کے عملی پیکر بن سکیں اور اِس کے فروغ کا ذریعہ ہوں۔
4۔ نوجوان نسل کی ایسی فکری اور نظریاتی تربیت کا اہتمام کرنا جس کے نتیجے میں وہ ہر نوع کی تنگ نظری، تعصب اور اِنتہا پسندی سے بالاتر اور مذہبی رواداری اورتحمل و برداشت کے اَوصاف سے متصف ہو کر عالمی سطح پر کتاب و سنت کی حقیقی تعلیمات کی ترویج و اِشاعت اور اِتحاد و یگانگت کے لیے اپنا مؤثر اور مفید کردار ادا کرنے کے قابل ہو سکیں۔
5۔ طلبہ و طالبات کی شخصیات کو اِسلامی علوم کے ساتھ عصری علوم و فنون سے آراستہ و پیراستہ کرنا تاکہ وہ جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہو کر معاشرے میں باعزت، باوقار، مؤثر ،مثبت، کار آمد اور افادہ رساں کردار ادا کر سکیں اور آئندہ نسلوں کوصحیح دینی راہ نُمائی فراہم کر سکیں۔
6۔ طلبہ و طالبات کےلیے پیشہ ورانہ فنی تربیت (vocational training) کے حصول کے فرواں مواقع مہیا کرنا تاکہ جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھیں تو عزّ و اِفتخار کے ساتھ کھڑے ہوں اور معاشرے کی تعمیر و ترقی میں مطلوبہ معیاری کردار ادا کر سکیں۔
7۔ طلبہ و طالبات کو کمپیوٹر سائنس کی بنیادی تعلیم دینا تاکہ وہ دین کی اِشاعت و تبلیغ میں جدید ٹیکنالوجی کا بھرپور استعمال کر سکیں۔
8۔ عمرانی علوم (social sciences)، جنرل سائنس اور ریاضی کے مضامین پڑھانا تاکہ وہ جدید اَذہان تک اِسلامی تعلیمات کا مؤثر طریقے سے اِبلاغ کر سکیں۔
9۔ اَمن و اِعتدال، بین المسالک اور بین المذاہب رواداری کو فروغ دینے والی تعلیمات پر مشتمل مضامین پڑھانا تاکہ اِن اِداروں کے اسکالرز متوازن سوچ، معتدل فکر اور کشادہ ذہن کے ساتھ بین المسالک و بین المذاہب رواداری کے پیامبر بن سکیں۔
10۔ عربی و انگریزی بول چال میں مہارت کے لیے اِقدامات کرنا تاکہ عالمی سطح پر اپنے ما فی الضمیر کا اظہار کر سکیں۔
11۔ ضلعی سطح پر ماڈل مدارِس کا قیام عمل میں لانا تاکہ وہ معاصر دیگر مدارس کے ہجوم میں رول ماڈل کا درجہ اور مقام حاصل کر سکیں۔
تبصرہ