”نظام المدارِس پاکستان“ کا مقصدِ تاسیس رِجالِ کارکی ایسی جامع اور متوازِن کھیپ تیار کرنا ہے جو قومی اور بین الاقوامی سطح پر مختلف شعبہ ہاے زندگی میں ملتِ اِسلامیہ کی راہ نُمائی اور قیادت کا فریضہ انجام دے سکے۔ چنانچہ ”نظام المدارِس پاکستان“ کے بانی شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری نے جب مدارس میں مروّجہ نصاب کا جائزہ لیا تو انہوں نے شدت سے محسوس کیا کہ مدارس میں سالہا سال سے پڑھائے جانے والے نصاب کو عصری تقاضوں کے مطابق ایک مربوط اور جامع اسکیم کے تحت اَز سر نو تشکیل دینا ناگریز ہے۔ علومِ دین کے نصاب کی تشکیلِ نَو کے اِس رفیع الشان مقصد کے لیے انہوں نے ایک وسیع الجہات شعبہ تحقیقِ نصاب قائم کیا، جس کے تحت علومِ شریعہ کے ماہر اسکالرز، تجربہ کار، فارن کوالیفائڈ اور پی۔ ایچ۔ ڈی اساتذہ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی۔ اس کمیٹی نے شیخ الاسلام کی فکری و نظریاتی راہ نُمائی میں عصر حاضر کے تقاضوں اور فرمانِ اِمروز کے مطابق نصاب مرتب کر کے شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہرالقادری کی خدمت میں پیش کیا جس کی انہوں نے انتہائی عمیق نظری اور باریک بینی سے نظرِ ثانی فرمائی اور اسے ضروری ترمیمات و اِصطلاحات کے بعد حتمی شکل دی۔ یہ نصاب ایک طرف دین کے حقیقی فہم کے لیے اِسلام کے مصادرِ اصلیہ سے تعلق کو مضبوط بناتا ہے تو دوسری طرف بڑی حد تک عصری تعلیمی ضروریات اور مقاصد سے موافقت پیدا کرکے اسلام کے مصادرِ اصلیہ اور عصری تعلیمی مقتضیات کے مابین خلیج کو دور کرتا ہے۔ اس نصاب میں ایک طرف تو قرآن و علوم القرآن، حدیث و علوم الحدیث، سیرت و فضائلِ نبوی ﷺ، فقہ و علوم الفقہ، عربی زبان و ادب، تصوف و آداب، افکار وعقائد کو اور دوسری طرف انگریزی، اُردو، مطالعہ پاکستان، کمپیوٹر سائنس، معاشیات، شہریت، ایجوکیشن، سیاسیات، تاریخ، اِسلام اور سائنس، تقابلِ اَدیان، وسطیات اور دعوہ و اِرشاد جیسے مضامین کو مختلف تعلیمی سطحوں کا لازمی حصہ بنایا گیا ہے۔
درسی مواد کی تشکیل وترتیب میں قرآن مجید کے تعلم اور فہم پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ تعلیمی اداروں کی نصابی تاریخ میں یہ اوّلین اعزاز بھی حاصل کیاگیا ہے کہ پورے قرآن مجید کو ”الشہادۃ الثانویۃ“ سے ”الشہادۃ العالمیۃ“ تک آٹھ سالوں میں ایک لازمی درسی کتاب کی حیثیت سے شامل کیاگیا ہے۔ کتبِ حدیث کو مستند شروح کے مطالعہ کے ساتھ اس نصاب کا حصہ بنایا گیا ہے۔ قلوب و اَذہان میں جدّت و وسعت، اِعتدال اور تحمل و بردباری پیدا کرنے کے لیے اسلام اور سائنس، تقابلِ اَدیان، ادب التعلیم و التعلم، اسلامی افکار و نظریات اور وسطیات جیسے مضامین شامل کیے گئے ہیں، جب کہ عربی و انگریزی زبان میں بول چال کی مہارت پیدا کرنے کے لیے عربی و انگریزی تکلم کو بطور مضمون متعارف کرایا گیا ہے۔
نصاب سازی ایک مسلسل، تدریجی اور ارتقائی عمل ہے جو سالانہ بنیاد پر طلبہ، اساتذہ اور ماہرینِ تعلیم کے عملی مشوروں کی روشنی میں نظر ثانی کا محتاج ہے، اس لیے وقت اور حالات کے ساتھ اس مرتب کردہ نصاب میں بھی تغیر و تبدل کی گنجائش سے صرفِ نظر نہیں کیا جائے گا۔ اگلے صفحات میں دیے گئے نصاب کو حتی المقدور موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق، متوازن، جامع، مربوط، مبسوط اور مرتب شکل میں پیش کرنے کی کاوش کی گئی ہے۔ اسے مزید وقیع بنانے کے لئے اساتذۂ کرام کی راہ نُمائی اور مفید اِصلاحی تجاویز و ترامیم کا کشادہ نظری اور وسیع القلبی سے خیر مقدم کیا جائے گا۔
اِس نصاب کی تدوین و تسوید میں حتی المقدور کوشش کی گئی ہے کہ ہر مضمون کے لیے قدیم اور جدید میں سے بہترین کتب کا اِنتخاب کیا جائے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر مضمون کی تمام اَہم کتب کی ایک ساتھ تدریس ایک اَدقّ اور مشکل کام ہے۔ لہٰذا پہلے مرحلہ میں وہ کتب جو مروّجہ ہیں اور بہ آسانی دست یاب ہوسکتی ہیں انہیں درسی کتب کے طور پر شامل کیا گیا ہے اور باقی کتب کو برائے معاونت و مطالعہ شامل کیا گیا ہے۔ وہ بقیہ کتب ہر جامعہ کو سافٹ کاپی (PDF) کی صورت میں مہیا کی جائیں گی۔ بعد ازاں بتدریج اِن کتب کو بھی درسی کتب میں شامل کر لیا جائے گا۔
”نظام المدارِس پاکستان“ کے نصاب کو اِس انداز سے ترتیب دیا گیا ہے کہ فارغ التحصیل علماء اور اسکالرز عملی زندگی میں خدمتِ دین و اِنسانیت کے ساتھ ساتھ اَمن، رواداری اور اِعتدال کی اَہمیت اور اِفادیت کو بھی اُجاگر کر سکیں تاکہ معاشرے سے محو ہوتی اَخلاقی اَقدار کو حیاتِ نَو دی جاسکے۔ نیز ملکی قوانین و ضوابط کی پاس داری کو بھی مدِ نظر رکھا جائے۔ اللہ رب العزت کی بارگاہ میں قوی امید ہے کہ ایسے جامع اور عصری تقاضوں سے ہم آہنگ نصاب سے اِجتماعی نظم، اِتحادِ اُمت اور قومی و ملی یک جہتی پیدا ہوگی۔ (اِن شاء اللہ العزیز)۔ اللہ تعالیٰ اِس کاوش کو اپنی بارگاہ میں شرفِ قبولیت سے نوازے اور اسے آنے والی نسلوں کی فکری و ذہنی اور علمی آب یاری کے ساتھ ساتھ اُن کی اخلاقی اور روحانی تربیت کا بھی ذریعہ بنائے۔ (آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ)
تبصرہ